Orhan

Add To collaction

کسی مہرباں نے آ کے

کسی مہرباں نے آ کے 
از قلم ماہ وش چوہدری
قسط نمبر10

ابیہا اور ضرار کا نکاح ہو چکا تھا
ابیہا نام پر ابھی بھی شاکڈ تھی۔۔۔۔اگر یہ وہی ضرار شاہ ہوا تو۔۔۔۔۔اس سے آگے وہ سوچنا نہیں  چاہتی تھی
رات کو اماں جان ابیہا اور نیہا دونوں کو زبردستی اپنے ساتھ ضرار پیلس لے گئیں تھیں
مسز عالمگیر نے بہلا پھسلا کر انہیں کھانا کھلایا تھا
ضرار اپنے کمرے میں تھا۔۔۔نہ وہ باہر آیا اور نہ ہی کسی نے اسے باہر بلایا
البتہ کھانے کے بعد اماں جان خود ضرار کے کمرے میں گئی تھیں
بہو۔۔۔۔۔مسز عالمگیر کیچن میں چائے بنوا رہی تھیں جب اماں جان نے لاؤنج میں پکارا
جی اماں جان آئی۔۔۔۔۔وہ کام کُک کے حوالے کر کے باہر آئیں
جی آپ نے بلایا۔۔۔۔۔اماں
ہاں بہو وہ ابیہا کو ضرار کے کمرے میں چھوڑ آؤ
آج ہی ۔۔۔۔وہ حیران ہوئیں
ہاں تو اور کب۔۔۔۔۔ نکاح ہو چکا ہے اب وہ بیوی ہے ضرار کی۔۔۔۔اماں جان ذرا خفگی سے بولیں
وہ تو ٹھیک ہے اماں جان مگر ابیہا کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں اسکا بی پی۔۔۔۔
میں سب جانتی ہوں بہو پر تم چھوڑ آؤ اسے میں ضرار سے بات کر آئی ہوں
جی جیسے آپکی مرضی۔۔۔۔۔مسز عالمگیر نے مزید بحث مناسب نہ سمجھی اور ابیہا کو ضرار کے کمرے میں چھوڑنے چل دیں
         ………………………………………………
وہ نہیں مان رہی تھی جانے کو جب اماں جان روم میں داخل ہوئیں
کیوں نہیں جانا بیٹا شوہر ہے تمہارا وہ اور اسی کا کمرہ اب تمہارا رہن ہے میری بچی۔۔۔۔۔انہوں نے ابیہا کے ماتھے کا بوسہ لیا
مگر۔۔۔۔وہ ہچکچائی
اگر مگر کچھ نہیں جا میری بچی۔۔۔چل شاباش ہونں۔۔۔
جی۔۔۔۔۔ابیہا سر ہلا کر کھڑی ہوئی اور نیہا کو دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہی تھی
وہ نیہا کے پاس آئی ۔۔۔۔نیہا اسکے گلے لگ گئی 
چند منٹ بعد نیہا ہی پیچھے ہٹی۔۔۔۔۔۔ جاؤ بیا اللّہ تمہیں خوش رکھے۔۔۔۔شاید ہماری قسمت میں ایسا ہی لکھا تھا سب جاؤ۔۔۔۔نیہا نے بہت حوصلے سے کہتے ہوئے اسکے آنسو پونچھے۔۔۔
چلو ابیہا بیٹا کافی رات ہو گئی ہے ریسٹ کر لو پھر صبح ہوسپٹل بھی جانا ہے ہاں۔۔۔
جی۔۔۔۔ابیہا سر ہلاتی مسز عالمگیر کے پیچھے بھاری بھاری قدم اٹھاتی چل دی۔
        …………………………………………………
وہ دونوں ضرار کے روم میں اینٹر ہوئیں مگر روم خالی تھا 
شاید اسٹڈی میں ہو میں دیکھتی ہوں۔۔۔مسز عالمگیر اسٹڈی کی طرف گئیں۔۔۔۔ مگر وہ بھی خالی تھی
شاید واش روم میں ہے تم بیٹھو کھڑی کیوں ہو ۔۔۔۔وہ اسکی طرف آئیں
میں چلتی ہوں ہاں۔۔۔۔
ابیہا نے خوفزدہ نظروں سے انہیں دیکھا
وہ اُسکی شکل دیکھ کر مسکرائیں۔۔۔۔بیٹا پریشان مت ہو ضرار بہت اچھا ہے تمہارا
 بہت خیال رکھے گا کسی قسم کی فکر مت کرو۔۔۔۔
اب یہ کمرہ، یہ گھر اور گھر والا سب تمہارا ہے اور تم نے ہی سنبھالنا ہے ۔۔۔۔۔۔
بس ضرار تھوڑا غصے کا تیز ہے مگر دل کا بہت سوفٹ اور کئیرنگ ہے۔۔۔۔۔پریشان نہیں ہونا بلکل بھی یہاں سب تمہارے اپنے ہیں۔۔۔۔
اب میں چلتی ہوں تم آرام کرو۔۔۔۔وہ ابیہا کا سر تھپتھپاتی چلی گئیں
پیچھے ابیہا اتنے بڑے کمرے میں اکیلی رہ 
گئی۔۔۔۔۔۔ہمارا تو پورا گھر ہی اتنا ہے جتنا یہ 
ایک کمرہ۔۔۔اس نے چاروں طرف نظریں
 گھمائیں
وہ بیڈ سے کچھ فاصلے پر موجود صوفے پر بیٹھی تھی اسکا دل چاہ رہا تھا کہ بیڈ پر جا کر لیٹ جائے مگر ایک خوف اور ہچکچاہٹ سی تھی کہ ناجانے وہ کیا سمجھے۔۔۔۔؟؟؟؟
مزید آدھا گھنٹہ انتظار کرنے کے بعد وہ کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔۔حد ہے کوئی اتنی دیر بھی لگاتا ہے واش روم میں شاید سو گیا ہے وہاں جا کر۔۔۔۔وہ بڑبڑاتی بیڈ کی طرف بڑھی اور بیڈ کی ایک سائیڈ پر بلکل کنارے لگ کر لیٹی اور سر تک کمفرٹ تان کر آنکھیں بند کر لیں دو دن سے جاگ رہی تھی
 اس لیے پتا ہی نہ چلا کب نیند آ گئی
       …………………………………………………
رات تین بجے کے قریب وہ واپس کمرے میں 
آیا تھا
اماں جان کے جانے کے بعد وہ روم سے ملحق ٹیریس پر نکل گیا تھا اور مسلسل سیگرٹ پھونکتا رہا
جو بھی ہوا بہت غلط ہوا تھا۔۔۔۔۔وہ جو کسی لڑکی کو خود کے قریب نہ لانے کا تہیہ کر چکا تھا۔۔۔۔ڈیڈ اور اماں جان کی وجہ سے دھرے کا دھرا رہ گیا تھا۔۔۔اور وہ مجبور ہونا نہیں چاہتا تھا مگر پھر بھی ہو چکا تھا
فلحال وہ کوئی بھی فیصلہ کرنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔۔جو حالات تھے اس میں خاموشی اختیار کر لینا ہی بہتر تھا
 ہاں البتہ حالات سازگار ہونے پر وہ اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کر لے گا وہ سوچ چکا تھا۔۔۔۔۔
اور یہی سوچ کر سیگرٹ کا آخری کش لے کر جوتے تلے مسلا اور کمرے میں آیا
جہاں سر سے پیر تک کمبل اوڑھے وجود پر ایک اچٹتی نظر ڈالتا دوسری سائیڈ پر لیٹ کر کروٹ بدل لی۔
         …………………………………………………
موبائل کی مسلسل وائبریشن نے ضرار کو نیند سے بیدار کیا۔۔
واٹ ربش۔۔۔۔سونے بھی نہیں دیتے اسٹوپڈ۔۔۔اس نے بڑبڑاتے ہوئے نمبر دیکھے بغیر کال اوکے کی
واٹس پرابلم۔۔۔۔۔۔وہ سمجھا آفس سے ہو گی کال
مگر دوسری طرف عالم شاہ کی آواز پر پوری آنکھیں کھولتا سیدھا ہوا
جی ڈیڈ۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف ڈیڈ کی بات سن کر وہ پریشان ہو اٹھا
اوکے ڈیڈ وئی آر کمنگ۔۔۔۔۔۔یاہ۔۔۔کمنگ
خدا حافظ۔۔۔
ابیہا کی بھی آنکھ کھل چکی تھی اس نے منہ سے کمبل ہٹایا مگر ضرار دوسری طرف منہ کیے سر ہاتھوں میں گرائے بیٹھا تھا
کیا ہوا اسے۔۔۔۔۔ ایسے کیوں بیٹھ گیا۔۔۔۔ کس کا فون ہو گا۔۔۔۔۔یہ ہے کون۔۔۔۔۔منہ بھی دوسری جانب ہے اس کا۔۔۔۔وہ خود ہی خود سے سوال کر رہی تھی
جب ضرار سیل ٹپخنے کے انداز میں سائیڈ ٹیبل پر رکھتا واش روم چلا گیا
اوف میری کنفیوزن کب ختم ہوگی کہ یہ وہی ضرار شاہ ہے یا کوئی اور۔۔۔۔؟؟وہ بے ذار ہوتی اٹھ بیٹھی جب دروازہ ناک ہوا
ابیہا نے چادر اوڑھ کر دروازہ کھولا
 وہاں مسز عالمگیر پریشان سی کھڑی تھیں
ابیہا ہمیں ابھی حویلی کے لیے نکلنا ہے تم ضرار کو جگا دو
کیا ہوا ہے آنٹی۔۔۔۔ابیہا کا دل کسی انہونی کے خیال سے دھڑکا
کچھ نہیں بس ضرار۔۔۔
ضرار بیٹا وہ ابیہا کے پیچھے کمرے میں نمودار ہوتے ضرار کی طرف بڑھیں
ضرار کا نام سن کر ابیہا بھی جلدی سے
 پلٹی
 اور۔۔۔۔۔۔اور سامنے اُسی ضرار شاہ کو دیکھ کر ساکت رہ گئی
ضرار بھی اُسے دیکھ چکا تھا مگر وہ بلکل نارمل تھا جیسے پہلے سے جانتا ہو کہ اسکا نکاح اسی لڑکی سے ہوا ہے جو اسے کلب میں ملی تھی
ابیہا منہ کھولے کھڑی تھی۔۔۔۔۔جب مسز عالمگیر اس کا بازو ہلا کر ساتھ آنے کا کہتیں مڑیں
اس نے فورًا انکی تقلید کی اور کمرے سے باہر نکل گئی
 وہ ہر گز اس شخص کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھی
         …………………………………………………
مسز عالمگیر نے زبردستی اسے جوس کا گلاس پلایا تھا۔۔۔۔۔مگر ابیہا اماں جان اور نیہا کے چلے جانے پر ہی اٹکی ہوئی تھی 
آنٹی پلیز مجھے سچ سچ بتا دیں کیا ہوا ہے ورنہ میرا دل۔۔۔۔امی ٹھیک ہیں ناں نیہا اور اماں جان کیوں مجھے چھوڑ کر چلی گئیں اور ہم حویلی کیوں جا رہے ہیں
ابیہا بیٹا حوصلہ کرو سب ٹھیک ہے
کیسے حوصلہ کروں۔۔۔۔کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے آپ بتاتی کیوں نہیں ہیں مجھے کیا ہوا ہے
 آخر۔۔۔۔۔۔۔ابیہا  کانپتی آواز میں چلائی
یور مدر ہیز گون۔۔۔۔جواب ضرار کی طرف سے آیا تھا
تائی جان میں پورچ میں ہوں جلدی آئیں۔۔۔وہ اتنی بڑی بات اتنی آسانی سے کہہ کر باہر نکل گیا
ابیہا اسکے جواب پر سٹل تھی۔۔۔یور مدر ہیز گون۔۔۔۔۔یور مدر ہیز گون۔۔۔۔۔۔اسکے کان میں ضرار کا کہا گیا فقرہ گونج رہا تھا 
اس پہلے کے وہ گرتی مسز عالمگیر نے سہارا دے کر اسے کرسی پر بیٹھایا اور پانی پلا کر حوصلہ دیتی بہت مشکل سے اسے سنبھالتیں گاڑی تک آئیں
وہ تینوں حویلی جا رہے تھے
        …………………………………………………
ہر آنکھ پُرنم تھی ہر دل غمگین تھا۔۔۔۔۔شاذمہ وجاہت شاہ کے لیے
جو آج سے بیس، پچیس سال پہلے اپنی خوشی اپنی مرضی سے پیا دیس گئی تھی اور آج واپس آئی تھی وہ بھی منوں مٹی تلے سونے۔۔۔۔۔۔
ابیہا اور نیہا دونوں کی حالت بہت بری تھی
حویلی میں موجود خواتین نے جیسے تیسے کر کے سنبھال لیا تھا انہیں۔۔۔
ابیہا نے بہت حد تک خود کو کمپوز کر لیا تھا نیہا کے لیے جو امی کے جانے کے غم میں بہت خاموش سی ہو گئی تھی۔۔۔
وقت اچھا یا بُرا آگے بڑھ ہی گیا تھا
شاذمہ کے چالیسویں کے بعد نیہا کے سسرال والوں کے اصرار پر چھوٹی سی گھریلو تقریب میں سادگی سے نیہا کو اسد کی سنگت میں ڈھیروں دعاؤں تلے رخصت کر دیا گیا تھا۔۔۔۔۔
ضرار شاذمہ کے جنازے کے بعد واپس اسلام آباد آ گیا تھا۔۔۔۔اور
اماں جان کے بارہا کہنے پر بھی وہ دوبارہ حویلی نہیں گیا 
حتی کہ نیہا کی رخصتی کی تقریب میں بھی شامل نہ ہوا تھا۔
اب تو اماں جان نے بھی خفا ہو کر فون کرنا چھوڑ دیا تھا۔۔
مگر کب تک خاموشی اختیار کی جاتی آخر کو انہوں نے بیٹی کے آخری وقت میں اسکی بیٹی کی ذمہ داری لی تھی اور وہ اس ذمہ داری سے نظریں چرانا نہیں چاہتی تھیں
اسی لیے انہوں نے عالم شاہ کو کل جانے کا کہا تھا تاکہ وہ اور عالم شاہ ابیہا کو وہاں چھوڑ آئیں اسکے اپنے گھر میں۔۔۔۔
       ……………………………………………………
ابیہا ضرار کی خاموشی کی وجہ جانتی تھی انسان خود چاہے کتنا ہی برا ہو مگر خود کو برا نہیں سمجھتا البتہ دوسروں کی ذرا سی بات کو کھینچ دیتا ہے۔۔۔اسی طرح ضرار شاہ نے کیا خود بے شک اس نائٹ کلب میں جاتا تھا ۔۔۔مگر میرے وہاں جانے کو غلط رنگ دیا اور اسلیے اس روز پیسے لوٹانے کے لیے مجھے کلب آنے کا کہہ گیا تھا
وہ مجھے غلط لڑکی سمجھ رہا ہے اسی لیے واپس نہیں پلٹا 
ابیہا انہی سوچوں میں مگن تھی جب اماں جان اسکے روم میں آئیں
ابیہا بچے کیا کر رہی ہو۔۔۔۔۔
کچھ نہیں اماں جان آپ کو کوئی کام تھا تو مجھے بلا لیتیں۔۔۔۔ابیہا کھڑی ہوئی
نہیں بس کچھ باتیں کرنی تھی اپنی بیٹی سے بیٹھ ادھر میرے پاس۔۔۔۔انہوں نے ابیہا کو اپنے ساتھ ہی بیٹھا لیا 
ابیہا ہم کل اسلام آباد جا رہے ہیں۔۔۔۔
کیوں۔۔۔۔۔۔وہ جان کر بھی انجان بنی
تجھے تیرے اپنے گھر چھوڑنے ۔۔۔۔۔اپنا گھر اور سڑا ہوا گھر والا سنبھال جا کر۔۔۔۔۔
ابیہا انکی بات پر بے اختیار مسکرائی 
ایسا ہی ہے وہ نک چڑا ۔۔۔اماں جان اسکی مسکراہٹ دیکھ چکی تھیں
میں تجھ سے ضرار  کے متعلق ہی بات کرنے آئی ہوں۔۔۔
جی اماں جان کریں۔۔۔۔۔
ابیہا بیٹا اصل میں۔۔۔۔۔۔۔
اماں جان نے اسے ضرار کے بچپن سے لے کر سیمل سے شادی اور علیحدگی تک کی ساری باتیں بتا دی تھیں
جنہیں سن کر ابیہا شاکڈ تھی۔۔۔۔
مگر میرا ضرار بہت حساس ہے ۔۔۔۔کسی کو دکھ میں نہیں دیکھ سکتا اس نے اس لڑکی کی زندگی سنوارنے کے لیے شادی کی اور وہ منحوس ماری میرے بچے کو دھوکہ دے گئی
ابیہا وہ بہت محبت کرنے والا اور خیال رکھنے والا ہے ۔۔۔۔۔تم اسے سمجھنے کی کوشش کرنا اور سب بھلا کر نئی زندگی شروع کرنا۔۔۔ضرار خوش رکھے گا تجھے مجھے پورا بھروسہ ہے اپنے بچے پر۔۔۔۔۔۔ہونں۔۔۔انہوں نے ابیہا کے سر کا بوسہ لیا
اچھا اب میں چلتی ہوں۔۔۔تو بھی آرام کرو صبح نکلنا بھی ہے۔۔۔۔اماں جان اسکے سر پر ہاتھ پھیرتی چلی گئیں
ضرار شاہ شادی شدہ تھا اور میرے حصے میں نا صرف شادی شدہ مرد آیا بلکہ وہ ایک برا شخص بھی ہے جو شراب پیتا ہے۔۔۔۔۔کلب جاتا ہے اور ناجانے کیا کیا کرتا ہو گا۔۔۔۔۔اونہہ
وہ سوچ کر کڑھ رہی تھی
مجھے تو وہ رحمدل اور اچھا لگا تھا تبھی تو آج تک اسکا لمس۔۔۔۔۔
ابیہا نے اپنے ہاتھ اور بازو پر ضرار شاہ کے لمس کو محسوس کیا 
مگر وہ۔۔۔۔۔
شکل سے ہی باہر کی پیداوار لگتا تھا اور وہاں ناجانے کتنی ہوں گی جنکو چھوڑ چکا ہے ریکارڈ میں صرف سیمل ہی آئی ہو گی یہاں سے جو بیاہ کر لے گیا تھا نواب۔۔۔۔
اوف میرے خدا یہ۔۔۔۔۔یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ
وہ دونوں ہاتھوں میں سر دیے بیٹھی تھی
اب کیا کروں۔۔۔۔۔جاؤں یا پھر
نیہا سے بات کرتی ہوں۔۔۔۔۔نہیں اسکی نئی نئی شادی ہے مجھے اسے پریشان نہیں کرنا چاہیے۔۔۔۔۔
 تو پھر خاموش ہو جاؤں کیا۔۔۔۔؟؟؟
خود سے ایک آدھ گھنٹہ تکرار کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی کہ میرا آخری ٹھکانہ وہی گھر ہے اسلیے خاموشی اختیار کر لینی چاہیے۔۔۔۔
       …………………………………………………
اگلے دن وہ اسلام آباد کے لیے نکل چکے تھے
عالم شاہ نے ضرار کو آنے کی اطلاع کر دی تھی۔۔۔۔
وہ لوگ شام تک ضرار پیلس پہنچے تھے۔۔۔۔
ضرار لاؤنج میں انہیں ویلکم کرنے کو موجود تھا۔۔۔۔۔
سلام دعا کے بعد وہ سب لاؤنج میں ہی بیٹھ چکے تھے
اماں جان اپنے شکوے شکایت کر رہی تھیں جنہیں ضرار سن رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوری بھی کرتا جا رہا تھا
ابیہا ان سے فاصلے پر موجود تھی اس لیے باتیں صیح سے سن نہیں پا رہی تھی۔۔۔۔مگر ضرار شاہ کا مکمل جائزہ لے چکی تھی
شلوار قمیض پہنے گولڈن براؤن بالوں کو سلیقے سے سجائے ،قیمتی ریسٹ واچ پہنے سیل ہاتھ میں جھلاتا ہوا وہ بہت چارمنگ لگ رہا تھا
اونہہ۔۔۔۔۔صورت کا کیا ہے سیرت اچھی ہونی چاہیے انسان کی۔۔۔۔ابیہا نے جائزہ مکمل کر کے رائے دی اور لاؤنج میں موجود اینٹیکس کو دیکھنے لگی
ابیہا میری بچی یہاں آ کر بیٹھ وہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہے۔۔۔۔اماں جان نے اسے پاس بلایا
اماں جان کے پکارنے پر ضرار بھی متوجہ
 ہوا۔۔۔۔۔۔ دونوں کی نظریں ملیں اور دونوں نے ہی چرا لیں
ابیہا آہستہ آہستہ قدم اٹھا تی پاس آئی
بیٹھ یہاں۔۔۔۔اماں جان نے اپنے ساتھ اور ضرار کے بلکل سامنے بیٹھایا اُسے۔۔۔۔
ضرار دیکھ میں اپنی اتنی پیاری بیٹی تجھے سونپ رہی ہوں اسکا خیال رکھنا سمجھا۔۔۔۔اگر میری بچی کو تجھ سے کوئی شکایت ہوئی تو پھر دیکھنا تو۔۔۔۔اماں جان نے پیار بھری دھمکی دی
اور اگر آپ کی بچی سے مجھے کوئی شکایت ہوئی تو۔۔۔۔۔ضرار نے آنکھیں اسکے چہرے پر فوکس کر کے پوچھا
ابیہا اسکی نظروں سے کنفیوز ہوئی
کوئی شکایت نہیں ہو گی سمجھا۔۔۔۔میری بچی بہت سمجھدار اور معصوم ہے۔۔۔۔اماں جان نے پیار سے کہہ کر ابیہا کا ہاتھ تھاما
جی انکی سمجھداری اور معصومیت کا تو 
قائل ہو چکا ہوں۔۔۔۔ضرار نے ہلکی آواز میں طنز کیا مگر جس کو سُنانا تھا وہ سن چکی
 تھی۔۔۔۔۔
ابیہا اسے کرارا سا جواب دینا چاہتی تھی مگر اماں جان کی وجہ سے خاموش رہی
اچھا میں ذرا آرام کر لوں پھر ہی رات کا کھانا کھائیں گے۔۔۔تم لوگ باتیں کرو۔۔۔۔اماں جان ان   دونوں کو چھوڑ کر چلی گئیں
اب لاؤنج میں وہ دونوں ہی آمنے سامنے بیٹھے تھے
ابیہا سر جھکائے انگلیاں چٹخاتی ضرار کی نظریں خود پر محسوس کر رہی تھی
اور ضرار صوفے کی بیک سے ٹیک لگائے ٹانگ پر ٹانگ جمائے ریلیکس سا بیٹھا اس کا جائزہ لے رہا تھا
لائٹ پنک کلر کے کپڑے پہنے سر پر چادر جمائے وہ کنفیوز سی بیٹھی تھی
ضرار نے کچھ دیر اور اسے کنفیوز کیا اور پھر کچھ بھی کہہ بنا  وہاں سے چلا گیا
ابیہا نے اسکے جانے پر شکر کا سانس لیا
        ……………………………………………………
رات کا کھانا ڈائنگ ٹیبل پر اکھٹا کھایا گیا
کھانے کے بعد عالم شاہ چائے کا کہتے اپنے روم میں چلے گئے
تم لوگ بھی جا کر آرام کرو ابیہا بھی تھک گئی ہے۔۔۔۔ضرار بیا کو لے جاؤ کمرے میں۔۔۔۔اماں جان نے ان دونوں سے کہا جو کھانا ختم کر چکے تھے
جی اماں جان پہلے آپ چلیں آپ کو چھوڑ آؤں کمرے میں۔۔۔۔۔ضرار نے اماں جان کا بازو تھام کر اٹھایا
میں چلی جاؤں گی تم لوگ جاؤ شاباش۔۔۔۔اماں جان انہیں اپنی نگرانی میں کمرے میں بھیجنا چاہتی تھی
اوکے۔۔۔۔ضرار اماں جان کی سوچ پڑھ چکا تھا اس لیے سیڑھیوں کی طرف بڑھا
جاؤ تم بھی بیا۔۔۔۔اللّہ خوش رکھے میرے بچوں کو۔۔۔اماں جان نے دعا دی اور ابیہا کو سیڑھیاں چڑھا کر ہی اپنے کمرے میں گئیں
           …………………………………………………
ابیہا کمرے میں داخل ہوئی تو ضرار سیگرٹ منہ میں دبائے لائٹر سے سلگا رہا تھا ایک اچٹی نظر ابیہا پر ڈال کر اپنے سابقہ عمل میں مصروف ہو گیا
ابیہا اسے دیکھ کر وہیں دروازے پر رک 
گئی ۔۔۔۔۔۔
ضرار کش لگاتا اسکی طرف مڑا
محترمہ خود ہی چل کر آنا ہو گا۔۔۔۔میرا تمہیں گود میں اٹھانے کا کوئی ارادہ نہیں
ابیہا اسکی بات پر شرمندہ ضرور ہوئی مگر جواب دینا نہ بھولی
مجھے بھی ایسا کوئی شوق نہیں۔۔۔۔مسٹر ضرار۔۔۔۔اس نے چبا چبا کر کہا
رئیلی۔۔۔۔وہ طنزیہ مسکراتا اسکے سامنے آ کھڑا ہوا
ابیہا جلدی سے دو قدم پیچھے ہٹی
کیا ہوا ڈر گئی۔۔۔۔؟؟
اونہہ۔۔۔۔ابیہا ہاشم کسی سے نہیں ڈرتی۔۔۔وہ ناک چڑھا کر بولی
ایگزیٹلی ابیہا ہاشم کسی سے نہیں ڈرتی۔۔۔۔اسی لیے تو راتوں کو نائٹ کلب میں پائی جاتی ہے۔۔۔۔۔ضرارنے کش لے کر دھواں اسکے منہ پر چھوڑا
آپ بھی تو جاتے ہیں وہاں۔۔۔۔وہ ہمت مجتمع کرتی بولی
بلکل جاتا ہوں۔۔۔مگر تمہاری طرح سودے کرنے نہیں
شٹ اپ۔۔۔۔
یو شٹ اپ۔۔۔۔۔جانتی ہو نفرت ہے مجھے ایسی عورتوں سے جو اپنی نیلامی کرتی پھرتی ہیں۔۔۔نفرت۔۔۔۔
میرے بال چھوڑو ضرار شاہ ۔۔۔میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔۔ابیہا دونوں ہاتھوں سے بال چھڑوا رہی تھی جو ضرار نے مُٹھی میں جکڑ لیے تھے
ہون۔۔۔۔ایسا نہیں کیا تو پھر دانیال ملک سے کیسی ڈیل چل رہی تھی تمہاری۔۔۔۔۔۔وہ دانیال ملک جس پر تھوکنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔۔وہ غرایا
مم۔۔۔۔میری مجبوری۔۔۔۔وہ منمنائی
اونہہ مجبوری۔۔۔۔اگر اب کوئی مجبوری آئے گی تو خود کو بیچنے چل دو گی کیا۔۔۔
ضرار پلیز میرے بال چھوڑیں۔۔۔میں نے کچھ غلط نہیں کیا۔۔۔۔سوچا تھا مگر کیا نہیں۔۔۔وہ آنسو بہاتی کپکپاتی آواز میں بول رہی تھی
کیوں سوچا غلط۔۔۔۔۔ہونں۔۔۔۔اتنا گر گئی تھی 
جو اتنا گندا سوچا تم نے اور اس پر عمل کرنے بھی چلی آئی۔۔۔ضرار نے اسکے بالوں کو جھٹکا دیا
جس پر ابیہا کی چیخ بلند ہوئی
چھوڑو مجھے۔۔۔۔تم۔۔۔تم جنگلی ہو پورے۔۔۔۔وحشی انسان۔۔۔۔میری مرضی میں جو بھی کرتی۔۔۔تمہیں اتنی تکلیف تھی تو پیچھے بھاگے کیوں آئے تھے چیک دینے۔۔۔میں بھیک مانگتی یا خود کو بیچتی تمہیں کیا مسلہ۔۔۔۔۔وہ کانپتی آواز میں بول رہی تھی
ضرار اسکے چہرے کے اتار چڑھاؤ۔۔۔۔اسکے ہونٹوں کی کپکپاہٹ۔۔۔۔اسکے آنسوؤں کی لڑی سب بغور دیکھ رہا تھا
واٹ از دس ضرار شاہ۔۔۔۔وہ خود سے پوچھ رہا تھا
تم تو کسی کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتے تھے اور اب خود ہی اس نازک سی لڑکی کو اتنی بری طرح رولا رہے ہو۔۔۔۔
اسے بھی سیمل کے کیے کی سزا دے رہے 
ہو۔۔۔۔۔کیوں۔۔۔۔اس نے خود کو ملامت کر کے جلدی سے ہاتھ ہٹا کر ابیہا کے بال چھوڑے
ابیہا بال آزاد ہونے پر روتی ہوئی دروازے کی طرف بڑھی۔۔۔۔اس نے ہینڈل پر ہاتھ رکھا ہی تھا جب پیچھے سے آواز آئی
آئی ایم سوری۔۔۔۔۔
وہ شاکڈ تھی ابھی مجھے مارنے کے درپے تھا اور ابھی سوری کہہ رہا ہے۔۔۔۔۔وہ آنسو پونچھتی پیچھے مڑی
تم پاگل ہو ضرار شاہ۔۔۔۔اس لیے۔۔۔۔۔وہ رکی
مم۔۔۔۔میری طرف مت آنا ورنہ۔۔۔۔وہ ضرار کو اپنی طرف بڑھتا دیکھ کر جلدی سے مڑتی ہینڈل پکڑ کر کھولنے ہی والی تھی۔۔۔جب اسکے ہاتھ پر ضرار کا بھاری ہاتھ آ پڑا
ابیہا میں اتنی ہمت نہ تھی پلٹتی یا پھر کچھ کہہ پاتی وہ اسکے تیوروں سے ڈرتی کپکپا رہی تھی۔۔۔
ضرار اسکی کپکپاہٹ محسوس کر چکا تھا۔۔۔اُسے کندھوں سے پکڑ کر اپنی طرف موڑا
میں پاگل ہوں۔۔۔۔۔پوچھا گیا
نن۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔وہ گھبرائی
ابھی کہا تم نے ۔۔۔۔۔
مم۔۔۔۔میرے منہ سے نکل گیا سوری
کان پکڑ کر سوری کرو۔۔۔۔ضرار کا پہلی دفعہ ایسی لڑکی سے پالا پڑ رہا تھا جو بیک وقت ڈرپوک بھی تھی اور بہادر بھی۔۔۔۔اسی لیے اُسے ستانے میں مزا آیا اسے
کک۔۔۔۔کان پکڑ کر۔۔۔۔وہ ہکلائی
یس۔۔۔کان پکڑ کر ۔۔۔۔ضرار نے اسکی بیچاری 
سی شکل پر ہونٹ بھینچ کر مسکراہٹ
 روکی
جج۔۔۔جی۔۔۔۔سس۔۔۔سوری۔۔۔ابیہا نے واقعی بچوں کے انداز میں کان پکڑ کر سوری کی
اب کے ضرار کا مسکراہٹ روکنا مشکل ہو گیا
اسلیے بھرپور سمائل سے اسے کان پکڑے دیکھا
سو سویٹ آف یو۔۔۔۔۔۔وہ ہنسا
ابیہا اسے ہنستے دیکھ کر آپے سے باہر ہوئی
یو ایڈیٹ۔۔۔۔سمجھتے کیا ہو خود کو۔۔۔۔وہ اسکا کالر دبوچ چکی تھی
اونہہ۔۔۔۔اچھے بچے ایسے نہیں کرتے۔۔۔۔ضرار نے اپنے کالر پر موجود اسکے دونوں ہاتھ 
تھامے
چھوڑو ۔۔۔۔چھوڑو میرے ہاتھ۔۔۔۔وہ چلائی
نہ چھوڑوں تو۔۔۔۔۔۔چیلنج کیا گیا
میں۔۔۔۔ابھی اماں جان کو بتاتی ہوں جا 
کر۔۔۔ابیہا نے دھمکی دی 
میں جانے دوں گا تو بتاؤ گی جا کر۔۔۔۔۔
ضرار شاہ چھوڑو میرا ہاتھ۔۔۔۔ابیہا مسلسل کوشش کر رہی تھی
اچھے بچے ضد نہیں کرتے۔۔۔۔وہ بھی پورا 
ڈھیٹ تھا
میں کوئی بچی وچی نہیں۔۔۔۔۔ میرے ہاتھ چھوڑو ذرا۔۔۔۔۔ابھی بتاتی ہوں تمہیں کہ کیا ہوں میں
یہ ہاتھ چھوڑنے کا سوچا تھا۔۔۔۔۔۔میں نے مگر تم نے ان ٹونٹی منٹس میں میرا ارادہ بدل دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔وہ کیا ہے  ناں کہ مجھے اپنی ٹکر کے لوگ بہت اٹریکٹ کرتے ہیں تو میں نے سوچا اچھی گزرے گی ہماری۔۔۔۔کیا خیال ہے۔۔۔۔وہ اسکی جانب جھکا
میرا خیال ہر گز نیک نہیں ہے۔۔۔۔۔مجھے نہیں رہنا تمہارے ساتھ۔۔۔۔۔میں کل ہی اماں جان اور ماموں کیساتھ واپس چلی جاؤں گی
آہہہہم۔۔۔۔۔کل جاؤ گی آج تو یہی ہو ناں۔۔۔۔۔ضرار آنکھ دباتا جان بھوج کر تنگ کر رہا تھا اسے اور خود پر خود ہی حیران بھی تھا
ضرار پلیز مجھے جانے دیں میں نہیں بتاؤں 
گی جا کر کہ آپ نے مجھے مارا ہے
واٹ مارا۔۔۔۔۔میں نے تمہیں ۔۔۔۔مگر کب۔۔۔ضرار کو اسکی بات پر  جھٹکا پڑا 
ابھی آپ نے بال کھینچے میرے وہ بھی جنگلیوں کی طرح۔۔۔۔اُسے مارنا ہی کہتے ہیں
اوہ ہ ۔۔۔۔۔۔اوکے۔۔۔۔۔آئی ایم سوری فار ڈیٹ مگر تم کمرے سے نہیں جاو گی اور نا ہی کل واپس حویلی جاؤ گی۔۔۔۔۔۔اگر منظور ہے تو میں ہاتھ چھوڑ دوں گا ورنہ۔۔۔۔۔
نہیں جاؤں گی۔۔۔۔پر میری بھی ایک شرط ہے 
شرط۔۔۔۔کیسی شرط۔۔۔۔؟؟؟وہ حیران ہوا
آج کے بعد مجھے سے بدتمیزی کی۔۔۔۔۔
 "یا پھر" مجھے مارنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔
" یا پھر" کسی اور کا غصہ مجھ پر نکالا۔۔۔۔
 "یا پھر "مجھے اس کلب والی بات پر ٹارچر کیا "یا پھر"۔۔۔
اوف کتنے" یا پھر " آئیں گے ابھی۔۔۔۔؟؟؟وہ تھکا
لگتا ہے آپ کو میری شرائط منظور نہیں
اوہ کم آن بے بی۔۔۔۔۔کہو میں سن رہا ہوں
خبردار جو مجھے بے بی شے بی یا کسی اور ایسے لقب سے پکارا۔۔۔۔۔مجھے پسند نہیں انگریزوں کے یہ چیپ طرزِتخاطب۔۔۔۔۔
اووف مجھے اتنی گاڑھی اردو نہیں آتی ہے محترمہ۔۔۔۔۔۔آپ اپنا "یا پھر" کنٹی نیو 
کریں۔۔۔پلیز
بس اتنے ہی تھے۔۔۔۔۔ابیہا کندھے اچکاتی بولی
اوکے آئی ہیو اسیپٹڈ یور آل "یا پھر"۔۔۔۔وہ مسکرایا
تو پھر مجھے آگے جانے دیں اور میرے ہاتھ چھوڑیں
او۔۔۔کے۔۔۔۔ضرار نے سر ہلا کر ہاتھ آزاد کیے
ابیہا اپنی سلطنت پر پاؤں رکھتی آگے
 بڑھی۔۔۔۔۔
ضرار اُسے ہی دیکھ رہا تھا
وہ چلتی ہوئی بڑی شان سے بیڈ کے دائیں جانب لیٹی۔۔۔۔۔ کمبل اوڑھا
"یا پھر " مجھے ڈسٹرب کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔وہ بلند آواز میں ایک اور شرط بتاتی کمبل میں گم ہو گئی
ضرار اسکی بات پر بےاختیار مسکرا دیا۔۔
کیا بات ہے ضرار شاہ آج بڑے دانت نکل رہے ہیں تمہارے۔۔۔۔وہ خود کو شرمندہ کرتا اسٹڈی میں چلا گیا.

   1
0 Comments